یومِ آزادی کا جشن ہرپاکستانی کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے‘ اوربات اگر زندہ دلانِ لاہورکی ہو تو اس جشن کا رنگ اور بھی گہرا ہوتا ہے‘ اسی لیے ہم بتارہے ہیں آپ کو لاہور کے وہ خاص مقامات جہاں 14 اگست کے دن جانا کارگر ثابت ہوسکتا ہے۔
آج ملک بھر میں فرزندانِ وطن جشن آزادی منا رہے ہیں، لیکن لاہور میں اس جشن کے رنگ کچھ اور ہی ہوتے ہیں، لاہور پاکستان کا ثقافتی دارالحکومت کہلاتا ہے اور یہاں کئی ایسے تاریخی مقامات ہیں جہاں شہر لاہور کے باشندے آزادی جیسی عظیم نعمت کومنانے کے لیے ذوق و شوق سے جاتے ہیں
یوں تو لاہور کے متوالوں کے لیے مال روڈ‘ گریٹر اقبال پارک اور واہگہ کوئی نئی چیزیں نہیں ہیں لیکن یومِ آزادی کی مناسبت سے ان تاریخی جگہوں کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔
اگر آپ جشنِ آزادی منانے کے کے لیے گھر سے باہر نکل رہے ہیں تو ان میں سے کوئی ایک جگہ تو یقیناً آپ کے ذوق کے عین مطابق ہوگی جہاں جاکر آپ اپنی خوشی سے آزادی کے اس حسین دن کا جشن مناسکیں گے۔
سوچ کیا رہے ہیں جشن آزادی کا دن گھر میں بیٹھ کر گزارنے کے لیے نہیں ہے ‘ مندرجہ ذیل میں سے اپنی پسند کی جگہ منتخب کیجئے اور ہمیں بھی کمنٹ میں بتائیں کہ آپ آزادی کا جشن کہاں منارہے ہیں۔
مزارِاقبال
لاہور کے قلب میں بادشاہی مسجد اور قلعے کے درمیان واقع حضوری باغ میں شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال اپنی آخری آرام گاہ میں ابدی نیند سورہے ہیں۔ اس سادہ لیکن پروقار عمارت کاطرز ِتعمیر افغان اور مورش طرز تعمیر سے متاثر ہے اور اسے مکمل طور پر لال پتھر سے تعمیر کیا گیا ہے۔
یوم ِ آزادی پر یہاں گارڈز کی تبدیلی کی پروقار تقریب منعقد ہوتی ہے جس کے بعد ہزاروں لوگ شاعر اور فلسفی علامہ محمد اقبال کو خراج تحسین پیش کرنے ان کے مزار پر حاضری دیتے ہیں۔
مینارِ پاکستان
ماضی میں منٹو پارک کہلانے والاوسیع و عریض پارک کے عین وسط میں قراردادِ پاکستان کی یادگار کا درجہ رکھنے والا ’مینارپاکستان‘ ایوب دور میں تعمیر کیا گیا۔ اس وقت سے اسے اقبال پارک کہا جانے لگا‘ اب اسے اور بادشاہی مسجد اور قلعے کو ملا کر ’گریٹر اقبال پارک کا نام دیا گیا ہے۔
مینارِ پاکستان کا ڈیزائن ترک ماہر ِتعمیرات نصر الدین مرات خان نے تیار کیا۔ تعمیر کا کام میاں عبدالخالق اینڈ کمپنی نے 23 مارچ 1960ء میں شروع کیا اور 21 اکتوبر 1968ء میں اس کی تعمیر مکمل ہوئی۔ اس کی تعمیر کی کل لاگت 75 لاکھ روپے تھی۔
یہ 18 ایکڑ رقبے پر محیط ہے۔ مینار کی بلندی 196 فٹ ہے اور مینار کے اوپر جانے کے لیے 324 سیڑھیاں ہیں جبکہ اس کے علاوہ جدید لفٹ بھی نصب کی گئی ہے۔
مینار کا نچلا حصہ پھول کی پتیوں سے مشہابہت رکھتا ہے۔ اس کی سنگ ِمرمر کی دیواروں پر قرآن کی آیات، قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ محمد اقبال کے اقوال اور پاکستان کی آزادی کی مختصر تاریخ کندہ ہے۔ اس کے علاوہ قراردادِ پاکستان کا مکمل متن بھی اردو اور بنگالی دونوں زبانوں میں اس کی دیواروں پر کندہ کیا گیا ہے۔
قلعہ لاہور
قلعۂ لاہور شہر کے شمال مغربی کونے پر واقع ہے۔ اس عظیم قلعے کی تاریخ زمانۂ قدیم سے جا ملتی ہے لیکن اس کی ازسرِ نوتعمیر مغل بادشاہ اکبر اعظم (1605ء-1556ء) نے کروائی جبکہ اکبر کے بعد آنے والی نسلیں بھی اس کی تزئین و آرائش کرتی رہیں۔
یہ قلعہ مغلیہ فنِ تعمیر و روایت کا ایک نہایت ہی شاندار نمونہ نظر آتاہے۔ قلعے کے اندر واقع چند مشہور مقامات میں شیش محل‘ عالمگیری دروازہ‘ نولکھا محل اور موتی مسجد شامل ہیں۔سنہ 1981 ء میں یونیسکو نے اس قلعے کو شالامار باغ کے ساتھ عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا تھا۔
یہ بات یقین سے نہیں کہی جاسکتی کہ قلعۂ لاہور کی بنیاد کس نے اور کب رکھی تھی چونکہ یہ معلومات تاریخ کے اوراق میں دفن ہوچکی ہیں‘ شاید ہمیشہ کے لئے۔ تاہم محکمٔہ آثارِ قدیمہ کی کھدائی کے دوران ملنے والے اشاروں سے پتہ چلتا ہے کہ یہ 1025ء سے بھی بہت پہلے تعمیر کیا گیا تھا۔
مرقدِ حفیظ جالندھری
پاکستان کے قومی ترانہ اور شاہنامہ اسلام کے خالق حفیظ جالندھری 21 دسمبر 1982ء کو لاہور پاکستان میں 82 سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ وہ مینار پاکستان کے سایہ تلے آسودہ خاک ہیں۔
حفیظ جالندھری ہندوستان کے شہر جالندھر میں 14 جنوری 1900ء کو پیدا ہوئے۔ انھیں نامور فارسی شاعر مولانا غلام قادر بلگرامی کی اصلاح حاصل رہی۔ حفیظ جالندھری پاک فوج میں ڈائریکٹر جنرل مورال، صدر پاکستان کے چیف ایڈوائزر اور رائٹرز گلڈ کے ڈائریکٹر کے منصب پر بھی فائز رہے ہیں۔
واہگہ بارڈر
لاہور سے 24 کلو میٹر اور بھارتی شہر امرتسر سے 32 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع واہگہ نامی گاؤں پر پاکستان اور ہندوستان کا مشہور واہگہ بارڈر قائم ہے‘ جی ٹی روڈ پر واقع یہ بارڈر اپنی مشہور ِ زمانہ پرچم کشائی کی تقریب کے سبب ایک ثقافتی مرکز کی اہمیت اختیا ر کرگیا ہے۔ خصوصاً قومی تہواروں کے موقع پر یہاں ہونے والی تقریب میں شریک عوام کا جوش و خروش دیدنی ہوتا ہے۔
قائد اعظم لائبریری ( باغ جناح )۔
باغ ِجناح لاہور کے خوشگوار ماحول میں قائم قائد اعظم لائبریری ہمارے شاندار ماضی، تاریخی ورثے اور درخشاں روایت کی عکاسی کرتا ہے۔ صوبہ پنجاب کے اعلیٰ ترین اداروں میں زیر تعلیم طلباء و طالبات کی ذہنی نشوونما میں یہ کتب خانہ اہم کردار اداکر رہا ہے۔ وطن عزیز کے مختلف شعبہ ہائے زندگی کے ماہرین اپنے تحقیقی و تکنیکی منصوبہ جات کی تکمیل کے لیے اس کتب خانے کے وسائل سے بھرپور استفادہ کر رہے ہیں۔
کتب خانے کی خصوصی اہمیت کے پیش نظر مختلف تعلیمی اداروں کے وفود بھی اکثر کتب خانے کا مطالعاتی دورہ کرتے رہتے ہیں۔ اس طرح یہ کتب خانہ ایک تعلیمی، تفریحی اور ثقافتی مرکز کا روپ دھار چکا ہے۔
کتب خانے میں اس وقت انگریزی، اردو، فارسی اور عربی کی ایک لاکھ بیس ہزار معیاری کتب موجود ہیں اور تقریباً سالانہ اڑھائی ہزار نئی کتب کا اضافہ ہو رہا ہے۔ علم دوست شخصیات کے لیے یومِ آزادی قائد اعظم لائبریری میں گزارنے سے بہتر کوئی مصرف نہیں ہوسکتا۔
جاوید منزل (اقبال میوزیم)۔
شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال اپنی ساری زندگی میں محض ایک گھر قائم کرپائے جس کا نام انہوں نے جاوید منزل رکھا‘ اور ا ن کی اہلیہ نے یہ گھر اپنے بیٹے جاوید اقبال کے نام حبہ کردیا تھا۔ علامہ اقبال نے یہ جگہ 25,025 روپے میں خریدی اور کل 16,000 ہزار روپے کی لاگت سے اس پر جاوید منزل نامی کوٹھی تیار کی۔
علامہ اقبال کو اس گھر میں منتقل ہوتے ہی پہلا اور شدید صدمہ اپنی اہلیہ کی وفات کا لگا اور خود وہ بھی 1938ء میں اسی مکان میں انتقال کرگئے۔ ان کے وصال کے 38 سال بعد بھی ان کا خانوادہ اسی مکان میں رہائش پذیر رہا۔
اگست 1961 ء میں آثارِ قدیمہ نے علامہ محمد اقبال کی سابقہ رہائش گاہ میکلوڈ روڈ والی کوٹھی کو حاصل کر اس کی بھی تزئین و آرائش کی۔یہ دو کنال کے رقبے پر محیط عمارت جو کہ میکلوڈ روڈ پر رتن سینمے کے ساتھ ہی واقع ہے ۔اس یادگار کی بوسیدہ چھتوں کو نکال کر دوبارہ لگایا گیا ۔عمارت تو تیار ہو گئی لیکن میوزیم نہ بن سکا ۔یہاں ایک چھوٹی سی لائبریری قائم کر دی ۔
لاہور میوزیم
لاہور میوزیم 1894ء میں تعمیر کیا گیا جو جنوبی ایشیاء کے چند اہم ترین تاریخ کے مراکز میں سے ایک ہے۔ لاہور میوزیم کو مرکزی میوزیم بھی کہا جاتا ہے اور یہ لاہور کی معروف شاہراہ مال روڈ لاہور پر واقع ہے۔
یہ میوزیم یونیورسٹی ہال کی قدیم عمارت کے بالمقابل واقع مغلیہ طرز تعمیر کا ایک شاہکار ہے۔ اس میوزیم میں مغل اور سکھوں کے دور کی نوادرات ہیں، جس میں لکڑی کا کام، مصوری کے فن پارے اور دوسرے نوادرات جو مغل، سکھ اور برطانوی دور حکومت سے تعلق رکھتے ہیں۔
اس میوزیم میں چند آلات موسیقی بھی رکھے گئے ہیں، اس کے علاوہ قدیم زیورات، کپڑا، برتن اور جنگ و جدل کا ساز و سامان شامل ہیں۔ یہاں قدیم ریاستوں کی یادگاریں بھی ہیں جو سندھ طاس تہذیب کی یاد دلاتی ہیں۔ یہ بدھا دور کی یادگاریں بھی ہیں۔
سارا سال یہاں مختلف قسم کی تقریبات جاری رہتی ہیں لیکن یومِ آزادی کے موقع پر یہاں خصوصی تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں کثیر تعداد میں شہری شرکت کرتے ہیں۔
ایوانِ اقبال
وزارتِ اطلاعات و نشریات اور قومی ورثہ کے تحت ایوانِ اقبال کے نام سے تعمیر کردہ یہ عمارت ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کا اہم مرکز ہے۔
یہاں پر دیگر تقریبات کے ساتھ پاکستان کے ہر اہم قومی دن پرتحریکِ پاکستان اور علامہ اقبال کے کردار کے حوالے سے تقریب منعقد ہوتی ہے جس میں عوام کی کثیر تعداد شرکت کرتی ہے۔
لاہور کے ایجرٹن روڈ پر واقع یہ ایوان ایک وسیع و عریض کنونشن ہال‘ تین دیگر عمارات‘ میٹنگ رومز‘ بینکوئٹ ہال اور علامہ اقبال کی تصویروں سے مزین تین گیلریز پر مشتمل ہے ۔ اس کا افتتاح سن 1989ء میں کیا گیا تھا۔
The post جشن آزادی – لاہورمیں آزادی کی تاریخ بیان کرتے مقامات appeared first on ARYNews.tv | Urdu - Har Lamha Bakhabar.
from ARYNews.tv | Urdu – Har Lamha Bakhabar https://ift.tt/2Z3wbVH
No comments:
Post a Comment